Karachi

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

تقسیم آب کا ابتر نظام : کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم

تقسیم آب کے ابتر نظام کے باعث کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم ہے، ضرورت 918 ایم جی ڈی ہے جبکہ سپلائی صرف 406 ایم جی ڈی ہے، پمپ ہاؤسز تک 580 ایم جی ڈی پانی پہنچتا ہے،30 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے، سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت کے باعث فراہمی آب کا نظام 13 سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جا سکی۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ شارٹ فال 512 ایم جی ڈی ہے، وزیر بلدیات سعید غنی فراہمی آب منصوبوں کی تکمیل میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ کراچی کے شہری گذشتہ کئی سال سے اپنے جائز منظور کردہ پانی کے شیئر سے محروم ہیں اور ایک عشرے سے پانی کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ 

دریائے سندھ اور حب ڈیم سے کراچی کو مجموعی طور پر 750 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم ہونا چاہیے تاہم واٹر بورڈ کے نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے، دھابے جی پمپمنگ اسٹیشن کے پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے کراچی کے پمپ ہاؤسز تک صرف 580 ایم جی ڈی (million galon per day) پانی پہنچتا ہے۔ واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم میں 30 فیصد پانی کے زیاں کی وجہ سے 174 ایم جی ڈی پانی کراچی کو نہیں مل پاتا جس کے سبب صرف 406 ایم جی ڈی واٹر بورڈ کے سسٹم میں باقی رہ جاتا ہے۔ سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت کی وجہ سے فراہمی آب کا نظام 13 سال سے اپ گریڈ کیا گیا اور نہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی ہے۔ 

واٹر بورڈ انتظامیہ اپنے کمزور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے 2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں پانی کی یہ معمولی مقدار گھریلو، کمرشل و انڈسٹریل صارفین میں تقسیم کرتی ہے جس کی اگرچہ کوئی جامع و مستند رپورٹ نہیں بنائی گئی ہے تاہم پانی کی فراہمی بیشتر بلک کنزیومرز کو میٹرز نصب کر کے اور 6 اضلاع کے تمام رہائشی علاقوں یعنی ریٹیل کنزیومر کو بغیر میٹر کی جاتی ہے، کچھ بلک کنزیومر کوبھی بغیر میٹر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے، وہ رہائشی و کمرشل علاقے جہاں بغیر میٹر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے وہاں پانی کی مقدار معلوم کرنے کے لیے پائپ کے سائز، پانی کی رفتار اور ٹائمنگ کا فارمولا استعمال کیا جاتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت واٹر بورڈ کے پائپ لائن سسٹم سے کراچی کے صنعتی و کمرشل کنزیومرز کو 32.5 ایم جی ڈی اور کراچی کے شہریوں کو 355.5 ایم جی ڈی پانی فراہم ہو رہا ہے۔

شہر میں ٹینکرز سروسز کے ذریعے 18 ایم جی ڈی پانی رہائشی علاقوں اور کمرشل مقامات کے لیے فراہم ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹینکرز سروسز کے ذریعے رہائشیوں کو صرف 8 ایم جی ڈی پانی فروخت کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ 10 ایم جی ڈی پانی کمرشل کنزیومرز کو فروخت ہوتا ہے۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو مجموعی طور پر 363.5 ایم جی ڈی پانی گھریلو استعمال کے لے فراہم کیا جا رہا ہے اور کمرشل و انڈسٹریز کو 42.5 ایم جی ڈی پانی فراہم ہو رہا ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واٹر بورڈ کا فراہمی آب کا پورا نظام میٹر کے تحت نہیں ہے اس لیے بالکل درست اعداد وشمار کا تعین مشکل ہے میٹرز base بلک کنزیومرز میں کمرشل و انڈسٹریز، وفاقی و صوبائی سرکاری ادارے، رہائشی علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کنٹونمنٹ بورڈز، پرائیویٹ سوسائٹیز، ہائی رائز بلڈنگز، سرکاری رہائشی کالونیاں وغیرہ شامل ہیں.

ان بلک کنزیومرز کو پائپ لائن سسٹم سے 126 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے اور 6 اضلاع کے 18 ٹاؤن کے رہائشیوں کو پائپ لائن سسٹم سے 262 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ ان 18 ٹاؤن میں کہیں بھی میٹرز نصب نہیں ہیں، بلک کنزیومرز کو کمرشل اور رہائشی میں اگر مزید تقسیم کیا جائے تو کمرشل و انڈسٹریز کو 32.5 ایم جی ڈی اور رہائشیوں علاقوں کو 93.5 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی میں پانی کے بحران کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس طلب کی تھی جس میں فراہمی آب کے جو اعداد وشمار پیش کیے گئے ہیں اس کے تحت 406 ایم جی ڈی پانی فراہم ہو رہا ہے تاہم اس کانفرنس میں سندھ حکومت نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ پانی کے اس بحران کا ذمے دار کون ہے۔

اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود فراہمی آب کا نظام بہتر کیوں نہیں کیا جا رہا،  وفاقی حکومت کی معاونت سے فراہمی آب کا عظیم منصوبہ K-III تقریباً 13 سال قبل مکمل کیا گیا جس کی بدولت 100 ایم جی ڈی پانی کراچی کو فراہم کیا جارہا ہے، اس کے بعد فراہمی آب کا کوئی منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا، 65 ایم جی ڈی فراہمی کا منصوبہ ، دھابے جی پر نئے پمپ ہاؤس کا منصوبہ 2 سال سے سست روی کا شکار ہے، حب کینال کی تعمیر ومرمت کا کام آج تک شروع نہیں ہو سکا، کینجھر جھیل سے پانی کی مقدار بڑھانے کے لیے سائفن ون سے دھابے جی پمپ ہاؤس تک 13 کلومیٹر کی لائن کی تنصیب کرنی ہے۔

اس پر ابھی تک پی سی ون ہی تشکیل نہیں دیا جا سکا، پانی چوری اور لائنوں میں رساؤ کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا جارہا۔ پیپلزپارٹی نے وفاق میں 5 سال حکومت کی اور سندھ میں 11 سال سے حکومت کر رہی ہے اس دوران کراچی کے لیے ایک قطرہ پانی کا اضافہ نہیں ہو سکا۔ واٹر بورڈ سے ملنے والے دستاویزات اور متعلقہ انجیئنرز کے مطابق کینجھر جھیل کے ذریعے واٹر بورڈ کا منظور کردہ کوٹا 650 ایم جی ڈی ہے تاہم نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے اور دھابے جی اسٹیشن میں پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے کراچی کے گیٹ وے تک صرف 494 ایم جی ڈی پانی فراہم ہو رہا ہے.

جس میں دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کو 450 ایم جی ڈی ، گھارو پمپنگ اسٹیشن کو 30 ایم جی ڈی، نہری نظام کے ذریعے براہ راست پاکستان اسٹیل مل کو 9 ایم جی ڈی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو 5 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے، گذشتہ مہینوں بلوچستان میں بارشوں کے سبب حب ڈیم کا لیول 300 فٹ تک بڑھ گیا ہے ، اس ذخیرے کی وجہ سے تقریباً 4 سال کے بعد حب ڈیم سے کراچی کے لیے 100 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے لیکن حب کینال کی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بڑی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان نے پانی کے بحران کے حوالے سے ایکسپریس کو بتایا کہ واٹر بورڈ شہر سے پانی کا بحران ختم کرنے میں سنجیدہ ہے، کراچی کے لیے پانی کی ضرورت 918 ایم جی ڈی ہے اور شارٹ فال 512 ایم جی ڈی ہے۔ 

ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ دھابے جی پمپ ہاؤس کی استعداد بڑھانے کے منصوبے  پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، یہ منصوبہ رواں سال ستمبر میں مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد 40 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی، 65 ایم جی ڈی منصوبے کے 2 ترقیاتی پیکجز پر کام جاری ہے اور نظرثانی شدہ پی سی ون سندھ حکومت کو منظوری کے لیے بھیجی جا چکی ہے جیسے ہی منظوری ملتی ہے بقیہ پیکیجز پر بھی ترقیاتی کام شروع کر دیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ جلد یہ منصوبہ مکمل کر لیا جائے۔  کینجھر جھیل سے ملنے والے پانی کی مقدار کو بڑھانے کے لیے سائفن ون سے دھابے جی پمپنگ اسٹیشن تک 13 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کے لیے پی سی ون بنایا جارہا ہے جسے 30 جولائی تک سندھ حکومت کو بھجوادیا جائے گا۔

سید اشرف علی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments