Karachi

6/recent/ticker-posts

عمارتی قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائیں

کراچی کے علاقے گلبہار (گولی مار) میں اپنے ہی بوجھ سے زمین بوس ہونے والی پانچ منزلہ غیر قانونی رہائشی عمارت کا ملبہ ہمارے اس انتظامی ڈھانچے کا نوحہ بیان کرتا نظر آرہا ہے جو وطن عزیز کے کئی شہروں اور کئی اداروں میں یکساں ہے۔ اچانک دھماکے سے منہدم ہونے والی عمارت کے ملبے تلے آکر جاں بحق ہونے والوں کی تصدیق شدہ تعداد خواتین اور بچوں سمیت 14 ہو چکی تھی جبکہ پاک آرمی کی انجینئرنگ کور نے ریسکیو آپریشن کے دوران تھرمل سنسر سے لیس اسکینر کے ذریعے جن افراد کو ملبے سے نکالا، انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے اور جمعہ کو بھی امدادی کام جاری رہا۔ 

کہا جاتا ہے کہ منہدم عمارت چھٹی منزل کی تعمیر کا بوجھ برداشت نہ کر سکی۔ حادثے کی شکار عمارت 20 سال پرانی بتائی جاتی ہے جس پر پچھلے چند برسوں کے دوران نئی تعمیرات کی گئیں۔ حادثے کے وقت اس میں پانچ خاندان آباد بتائے جاتے ہیں۔ مذکورہ عمارت کے گرنے سے دیگر دو ملحقہ عمارتیں بھی لپیٹ میں آئیں اور چوتھی عمارت کو بھی مخدوش قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رونما ہونے والا عمارتی حادثہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں۔ اس نوع کے واقعات ماضی میں ملک کے دوسرے شہروں میں بھی پیش آتے رہے ہیں۔ جن میں سے کئی واقعات میں پرانی عمارتوں کی خستہ حالی کا لنگڑا جواز پیش کرنا تو ممکن تھا مگر چند برس قبل تعمیر ہونے والی عمارتوں کے حادثات کو ناقص تعمیر کے ذمہ داروں اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی مشترکہ غفلت کا شاخسانہ قرار دیے بغیر چارہ نہیں۔ 

پچھلے برس 30؍ دسمبر کو پرانا حاجی کیمپ کے قریب ناقص میٹریل اور متعلقہ محکمے کی غفلت کے باعث رمضان سینٹر کے پلروں اور دیواروں میں دراڑیں پیدا ہونے سے خوف کی جو کیفیت پیدا ہوئی اس کے باعث عمارت میں رہائش پذیر 24 خاندانوں کو تو بحفاظت نکال لیا گیا۔ مگر عمارت نے اچانک زمین بوس ہو کر مال و اسباب کا صدقہ ضرور لے لیا۔ اس باب میں یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھنے کی ہے کہ غیر قانونی عمارت صرف وہ نہیں جو قبضہ کی گئی زمین پر تعمیر کی گئی ہو، وہ بھی ہے جو متعین زمینی حدود سمیت الاٹمنٹ کی شرائط اور تعمیراتی انجینئرنگ کے طے شدہ معیارات سے ہٹ کر بنائی جائے۔

سپریم کورٹ نے کراچی سمیت مختلف مقامات پر تجاوزات ختم کرنے کے جو احکامات دیے ان کا ایک پہلو ایسے امکانات کو روکنا ہے جو کراچی کے علاقے گلبہار میں رونما ہونے والے حادثے یا اسی روز فیڈرل بی ایریا بلاک 16 میں رونما ہونے والے واقعہ کی صورت میں ظاہر ہوئے، اس واقعہ میں ایک اسکول کا غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا اضافی چھجہ گرنے سے ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ قانون کی پاسداری متعلقہ اداروں اور محکموں کی ہی نہیں عام لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی مثال یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ تجاوزات کو قائم ہونے سے روکا جاتا تو اس باب میں نہ موجودہ مسائل پیدا ہوتے، نہ عدالتِ عظمیٰ کو سخت احکامات جاری کرنا پڑتے۔ 

غیر قانونی تعمیرات سے جڑے کئی دوسرے امور بھی ہیں جن میں بستیوں کی خوبصورتی، صحت و صفائی کے تقاضے اور شہریوں کیلئے ایسی دیرپا سہولتوں کو یقینی بنانا بھی شامل ہے جو من مانی کرنے والوں کے ہاتھوں مفقود ہو جاتی ہیں۔ اس لیے سانحہ گلبہار کا نوٹس لینے، انکوائری کرنے اور معطلی کے روایتی اعلانات سے ہٹ کر سچائی سے متعلقہ سوالات کا جواب حاصل کیا جانا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی صحیح معنوں میں بہتر بنانے کے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ موجودہ حکومت شہریوں کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کثیر المنزلہ عمارتوں کا جو منصوبہ رکھتی ہے اس کے پیش نظر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہائی رائز عمارتوں کے بین الاقوامی قوانین کا سختی سے اطلاق نئی عمارتوں پر ہی نہیں‘ سابقہ تعمیر شدہ عمارتوں پر بھی کیا جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments