Karachi

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

کراچی کا کوئی والی وارث نہیں

بدقسمتی سے مجھ سمیت دو کروڑ سے زائد لوگ پاکستان کے اُس شہر کے باسی ہیں جس کا کوئی بھی والی اور وارث نہیں۔ یہ لاوارث شہر زمانے سے اپنے طور پر پلتا اور پھلتا پھولتا رہا ہے۔ اِس کی آمدنی اور کمائی سے فیضیاب ہونے والے تو بہت ہیں مگر اِس کی تکالیف اورمصیبتوں کو کم کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ یہ مسائل و مصائب سے بھرا ایک ایسا شہر ہے جس کے ساتھ سارے حکمرانوں نے بے وفائی کی۔ سب سے پہلے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے اِس سے اپنی پرخاش نکالی اوروہ اِس شہر سے دارالحکومت ہی اُٹھا کر اسلام آباد لے گئے۔ پھر کیا تھا وفاقی حکومت اور اُسکے تمام اداروں کی ساری توجہ کراچی سے ہٹ کر اسلام آباد تک محدود ہو گئی۔ سنہ 1958ء میں کراچی جیسا تھا ویسا ہی چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ ایک ایک کر کے سارے مرکزی اداروں کے دفاتر اسلام آباد منتقل ہونا شروع ہو گئے اور رفتہ رفتہ اِسکی اہمیت و افادیت ختم ہو کر رہ گئی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو یہ شہر بہت پسند تھا ۔ صوبائی زبان سندھی بنانے کا ہوا کھڑا کر کے وہ کھیل کھیلا گیا کہ اب تک ختم نہیں ہو پایا۔ پاکستان کے کسی اور صوبے میں شہری اور غیر شہری کی ایسی تفریق ہمیں نہیں ملے گی جیسی سندھ صوبے میں پچاس سال سے قائم و دائم ہے۔ اِس تفریق مٹانے کی باتیں کرنے والا اِس صوبے کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔

کوٹہ سسٹم کے نام پر اردو بولنے والوں کے ساتھ حق تلفی کی گئی ۔ یہاں کسی حکومتی ادارے کی جاب یا سرکاری پوسٹ کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔ اور تو اور وفاقی سطح پر بھی جابس میں یہی تفریق روا برتی گئی۔ یوں اردو بولنے والا لائق سے لائق بچہ نوکری کی تلاش میں دردر مارا پھرتا رہا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ دس سال کے لیے لاگو کیا جانے والا یہ کوٹہ سسٹم اِس کی مدت پوری ہونے پر اِسے ختم کر سکے۔ نتیجتاً الطاف حسین جیسے لوگوں نے اپنی سیاست چمکائی اور مہاجروں کے احساسات اور تحفظات کو خوب ایکسپلائٹ کیا۔ مہاجروں کی حق تلفی کو لے کر الطاف حسین نے ایک ایسی سیاسی جماعت بنائی جس نے اردو بولنے والوں سے ووٹ لے کر انھیں ہی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ وہ انھیں حق تو کیا دلاتے بلکہ اُن کے پاس مہذب اور شائستہ ہونے کو جو مان اور احساس موجود تھا وہ بھی اُن سے چھین لیا۔

جبری چندے اور بھتہ خوری نے انھیں اُن کے اپنے کاروبار اور بزنس سے بھی محروم کر دیا۔ قربانی کی کھالیں چھین لینے کا رواج بھی اُنہی کے دور میں رائج ہوا۔ وہ اردو بولنے والوں کو نوکریاں تو کیا دلاتے غیر سرکاری اور پرائیویٹ نوکریاں بھی اُن سے دور کر دیں۔ مہاجر خاندان میں پیدا ہونے والا شخص ایک دہشت گرد، پھڈے باز اور بدمعاش کہلانے لگا۔ آئے دن کے احتجاجوں اور ہڑتالوں سے یہ شہر اطمینان اور سکون سے کاروبار کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ ٹارگٹ کلنگ اور گن پوائنٹ پر لوٹ لینے کا کلچر عام کر دیا گیا۔ ایک دور ایسا بھی گذرا ہے جب سارے دن میں دس بارہ لوگ مارے نہ جائیں شہر کوسکون نہیں آتا تھا۔دوچار کے مارے جانے کی خبریں تو معمولی لگا کرتی تھیں۔ قوم کے پچیس تیس سال اِس منافرت اورخونریزی کے ہاتھوں برباد کر دیے گئے۔ 

رینجرز اور سیکیورٹی فورسس کی مدد سے کراچی کا امن بحال کیا اور یہاں کے شہریوں کو ایک خوف کی فضا سے باہر نکالا۔ آج اِس شہر میں جو رونق ہے وہ اُنہی کی کاوشوں کانتیجہ ہے۔ انھوں نے نہ صرف امن قائم کیا بلکہ دہشت گردوں کاایسا قلع قمع کیا کہ وہ آج تک اپنی اکائیوں کو یکجا کرتے پھر رہے ہیں۔  پی ٹی آئی اور اُسکے چیئرمین عمران خان ہیں۔ جنھیں ایم کیو ایم کی شیرازہ بندی کے نتیجے میں ایسا بھرپور مینڈیٹ ملا جو سارے پاکستان سے نہیں ملا۔ صرف ایک شہر سے 14 نشستیں مل جانا کوئی معمولی مینڈیٹ نہیں ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اِس بھرپور مینڈیٹ کے باوجود پی ٹی آئی اور اُسکے چیئرمین نے کراچی والوں کے ساتھ کیسا رویہ اور سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ ڈیڑھ دو سال ہو چکے ہیں برسر اقتدار آئے ہوئے مگر اِس سارے عرصے میں خان صاحب نے کراچی والوں کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کیا۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ دس بیس سالوں سے حل نہیں کیا گیا۔ 

یہاں کی صوبائی حکومت ہر سال 500 نئی بسیں لانے کا اعلان تو کرتی ہے اور اُسکے لیے خطیررقم بھی بجٹوں میں مختص کرتی رہتی ہے لیکن شہریوں نے آج تک ایک بھی نئی بس نہیں دیکھی۔ وہ 1990 کی پرانی مزداؤں اور کالی پیلی ٹیکسیوں ہی میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کی سرکلر ریلوے بھی 1998ء سے بند کر دی گئی ہے۔ ہر چند سالوں بعد اُسے بحال کرنے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں اور جاپان سمیت کئی غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے کیے جانے کی خبریں تو بہت آتی رہتی ہیں لیکن عملدرآمد ندارد کے مانند یہ مسئلہ جوں کا توں ہی باقی رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جن کاتعلق بھی اِسی شہر سے ہے اوروہ اپنے طور پر اِسے بحال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن اِس پروجیکٹ کو بحال کرنے کی راہ میں بہت ہی طاقتور مافیا اپنا کھیل بڑی خوبی سے کھیل رہی ہے۔ چالیس بیالیس کلومیٹر ریلوے ٹریک پر غیر قانونی تعمیرات اور قبضہ کیا جا چکا ہے۔ انھیں ہٹانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ 

جب اِن تجاوزات کے خلاف کوئی آرڈر آتاہے تواُس پر عملدرآمد کے طور پر اکا دکا کارروائیاں تو ضرور ہوتی ہیں لیکن طاقتور مافیا اُسے پھر سے ناکام بنا دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو اشتعال دلا کے سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے باہر نکال لاتا ہے اور یوں یہ اہم کام ایک بار پھر ناکامی کے دلدل کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہمارے محترم چیف جسٹس بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں۔ وہ دفتر چھوڑ کر سڑکوں پر تو نکلنے سے رہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہاں کی شہری حکومت اور صوبائی حکومتیں بھی اِس کام میں اپنا فرض ادا کرنے پر تیار نہیں ۔ وہ بھی درپردہ ٹرانسپورٹ مافیا کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ خان حکومت کی عدم دلچسپی بھی اِس اہم فریضے کی ادائیگی میں رکاو ٹ بنی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح میاں شہباز شریف نے لاہور شہر کی میٹرو بس اور اورنج لائن سروس اور ملتان اور اسلام آباد کی میڑو بنا ڈالی ہے اُسی شوق اور جذبے سے کراچی شہر کے باسیوں کے مسائل بھی حل کیے جاتے تو یہ شہر آج بے تحاشہ مسائل کی آماجگاہ یا مسائلستان نہیں بنتا۔

ڈاکٹر منصور نورانی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments