Karachi

6/recent/ticker-posts

گمبھیر کراچی کا غیر سیاسی حل

بلدیاتی انتخابات سے بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی کا جو نظام قائم ہوا تھا اس میں کراچی اپنی جملہ قباحتوں کے باوجود موجود اور بڑھتی بنیادی ضرورتوں کو تو پورا کر رہا تھا، شجرکاری کے نئے تجربات کامیاب ہو کر یہ سبز ہو رہا تھا، بڑھتی ٹریفک کی روانی کے لئے انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برج بن رہے تھے، پانی کی تقسیم دوسرے شہروں سے قدرے قیمتاً زیادہ ہی سہی لیکن ٹھیک تھی، نکاسی آب اور صفائی ستھرائی کا سینی ٹیشن سسٹم چند فیصد خامیوں کمیوں کے ساتھ بحیثیت مجموعی درست کام کر رہا تھا بلکہ کراچی کے جتنے میئر خواہ جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم کے آئے، اتنے عظیم شہر میں بہترین کارکردگی پر ان کی کراچی ہی نہیں ملک اور بیرون ملک بھی تحسین ہوئی۔ شہر میں پیپلز پارٹی کے اثر کی پاکٹس میں منتخب کونسلر بھی کار خیر میں سرگرم رہ کر پارٹی پوزیشن اور اپنے اثر کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ متذکرہ ادوار میں کراچی، بلدیاتی نظام کے متوازی سیاسی عدم استحکام ، انتشار حتیٰ کہ انارکی کی سطح تک بھی پہنچ گیا تھا لیکن کافی مستعد بلدیاتی نظام کے باعث شہریوں کو ٹرانسپورٹ، سینی ٹیشن سسٹم، پینے کے پانی کی فراہمی، سٹریٹ لائٹس وغیرہ جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام کبھی منہدم نہیں ہوا، جو باریاں پوری کرنے والے ’’بدترین جمہوریت کے دور‘‘ میں ہوتا ہوتا نوبت آج کے المناک کراچی تک پہنچ گئی ہے۔ جس کی حالت زار (عوامی احتجاج کی ضرورت ہی نہیں) اس شہر بابرکت پر بیتی دردناک کہانی خود سنا رہی ہے۔ عدالتی احکامات سے منتخب صوبائی حکومتوں نے بالکل بے بس ہو کر آئینی تقاضے کے مطابق جو بلدیاتی انتخابات کرائے اس کے نتیجے میں بحال ہونے والے کراچی کے نحیف بلدیاتی نظام کو بھی بے بس کر دیا گیا۔ صوبائی حکومت اور میئر کے درمیان جوتیوں میں دال بٹتی بٹتی میئر کی مدت ختم ہو گئی لیکن کراچی میں وہ بلدیاتی نظام بحال نہ ہو سکا جو پورے ملک میں سب سے امتیازی کراچی کا ہی ہوتا رہا۔ 

وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلافات اور بچے کھچے ڈگمگاتے نظام کو بھی جامد رکھنے والے گیپس کی نہ ختم ہونے والی داستان بھی سراپا فکر و تشویش ہے۔ کراچی پر رحم کرتے صوبائی حکومت، شہر میں تحریک انصاف کی نئی بننے والی پارلیمانی طاقت اور دوسری بڑی منتخب جماعت گڈ ایم اکیو ایم مل کر بھی کچھ اچھا کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ ایک رابطہ کمیٹی جو حال ہی میں بنی بھی کراچی میں طوفانی بارشوں کے سلسلے سے جو تباہی مچی ہے، اس سے کراہتا، تیزی سے محروم ہوتا اور سیاسی دھینگا مشتی میں پہلے سے مبتلا کراچی بالآخر میڈیا کے ایجنڈے میں اولین ہو ہی گیا۔ دیکھتے ہیں میڈیا گھمبیر ہوئے شہر قائد کی بحالی کے لئے اپنی کمیونی کیشن سپورٹ کتنی اور کیسے فراہم کرتا ہے اور یہ کب اور کتنی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جہاں تک موضوع پر سیاسی ابلاغ کا تعلق ہے، وہ تو کج بحثی اور بلیم گیم سے ڈیزاسٹر پیدا کرنے والی قابل تحقیق کیس اسٹڈی بنی ہے۔ پاکستان کے شہر اس بے بہا کی حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی نے قیام پاکستان کے بعد چار عشروں میں تو تیز ترقی کی، جو حکومتوں سے زیادہ ہمارے اس مرکز اقتصادیات میں ملک بھر سے جمع ہوئی بہترین افرادی قوت کی مرہون منت ہے۔

ملکی دارالحکومت کے تشخص سے محروم ہونے کے بعد بھی کراچی کی تعمیر و ترقی اور تابناکی قابل رشک رہی، اور اس نے ’’منی پاکستان ‘‘ ہونے کا نیا امتیاز حاصل کیا۔ پھر مختلف سیاسی اطراف و ذرائع سے کچھ غلط ہونے لگا، جو بڑھتا گیا اور اتنا کہ کراچی کو دھچکے لگنا شروع ہو گئے۔ یہ کبھی پٹڑی سے اترتا اور کبھی چڑھتا اور پھر اتر ہی گیا۔ پھر بھی بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بڑھتی بدنظمی، سیاسی انتشار اور طویل دہشت گردی کی زد میں آنے پر بھی جیسے تیسے گزارا ہوتا رہا ۔ این آر او نے بگڑے آئین کا حلیہ درست کرنے اور گزرے سیاسی ادوار کے ڈیزاسٹرز کے کفارے کی جو راہ ہموار کی اس میں آئین کا بگڑا حلیہ درست ہونے پر بھی سابقہ معیار کے بلدیاتی نظام کی جگہ نہ بننے دی گئی، اور بحالی جمہوریت کے بعد کا پہلا عشرہ ہونا تو کفارے کا عشرہ چاہئے تھا لیکن یہ فقط باریاں پوری کرنے والی کرپٹ اور نااہل حکومتوں کے اقتدار کی باریاں پوری کرنے والا ثابت رہا ۔ 

تسلی کراچی والوں کو ہی نہیں پوری قوم کو راس ’’باکمال‘‘ بیانیے سے دی گی کہ ’’ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے ‘‘ شاید بیانیہ تراشنے والے کا دل بھی مان رہا تھا کہ سول ملٹری حکومت کے گزرے عشرے میں کراچی کی جاری تباہ کاریوں میں نہ جانے کیا غائب ہے ؟ اس میں شدید مطلوب باہمی اعتماد کے مکمل فقدان کی شنید بھی ہے۔ ان تمام ترین تلخ حقائق کے باوجود کراچی کی سول سوسائٹی کا غیر سیاسی سیکشن بڑا بھرپور اور مردم خیز ہے ۔ یہاں کی فقط ملکی وسائل پر چلنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOS) پہلے ہی شہریوں کی گراں قدر خدمات میں مصروف عمل ہیں اسی شہر سے دنیا کا سب سے بڑا فری ایمبولینس سروس کا ملک گیر سسٹم بنا جو بانی کے انتقال کے بعد بھی کامیابی سے چل رہا ہے ایسے ہی غیر سیاسی اشرافیہ میں ایک سے بڑھ کر ایک پوٹینشل سٹیزن ہے کامیاب فلاحی اداروں کی بھی کمی نہیں ۔ 

اب وہی باہر نکل آئیں اور فقط تین بنیادی سہولتوں، جلد سے جلد دستیاب محفوظ اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سروس، پینے کے صاف پانی کی مطلوب مقدار میں فراہمی، نکاسی آب اور صفائی (سینی ٹیشن سسٹم) پر فوکس کریں اپنی کاوش پر سیاسی سایہ بھی نہ پڑنے دیں برین سٹارمنگ میں جائیں اور جائزہ لیں کہ وہ کیسی مہم برائے بحالی شہری حقوق چلائیں کہ سیاسی ذمے داران پٹڑی پر آ جائیں۔ کیسے ممکن ہو کہ ان فوری ضرورتوں کے لئے فنڈز کہاں سے لینے اور کتنے آئیں، اور انہیں اسے کیسے خرچ کرایا جائے کہ ایک دھیلے کی کرپشن بھی نہ ہونے پائے سیاسی منتخب نمائندوں کو کسی سلیقے اور قابل قبول طریقے سے ہوم ورک کے بعد ضرور ساتھ ملایا جائے بلکہ سب کچھ انہی سے کرایا جائے لیکن لائحہ عمل کی تیاری اور مانیٹرنگ کی حد تک کراچی کے غیر سیاسی سوک پریشر کو استعمال کرنا ہی پڑے گا کہ ان ہی کی بیداری اور تعقب سب سے زیادہ موثر اور باجواز ہو گا۔

ڈاکٹر مجاہد منصوری

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments