Karachi

6/recent/ticker-posts

شہر قائد کی بربادی کا ذمہ دار کون

حالیہ بارشوں کے بعد کراچی میں غریبوں کے گھر گھر شامِ غریباں ہے، اس محرم کا نوحہ یہ ہے کہ چہار دام ماتم بس ماتم ہے۔ آزمائش کے ان شب وروز سے کس طرح یکسوئی سے نکلنا ہے اور دکھی دلوں پر مرہم رکھ کر مستقبل میں ایسی بلاخیز تباہ کاریوں سے بچنا ہے، اس جانب حکمران طبقات میں توجہ کی ضرورت کا کوئی احساس نہیں، بلکہ اس وقت قائد اعظم کے اس شہر کی مثال اُس ماں کی سی ہے جس کی موت پر نالائق اور خود غرض بیٹے اپنے سے چھوٹے بھائیوں کی فکر کی بجائے اس بات پر اختلاف کا میدان گرم کئے ہوں کہ دوسرے نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ یہی حال ان دنوں وفاق ، سندھ حکومت اور میئرکراچی یعنی بلدیاتی اختیارمندوں کا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ وفاق کو سب سے زیادہ ریونیو دینے اور کاروبار و روزگار کے بے قید مواقع رکھنے والے کراچی کی یوں بے چارگی میں اُن تمام اختیارمندوں کا حصہ ہے جو اس وقت باہم دست وگریباں ہیں یا پھر جنہوں نے خود کو ناگزیر بنانے کیلئے ان عناصر کو بوٹیوں پر لڑا ئے رکھا ہو۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔

تمام عمر کئے،چاک دامنی کے گلے
بعزمِ بخیہ گری بخیہ گرکا ذکر کریں

عروس البلاد کو اندھیروں کی آماجگاہ کس نے بنایا، قائد اعظم کے اس مسکن کو خوف و دہشت سے کس نے بھر دیا، سونے کی اس چڑیا کو لوٹ کر محلات کس نے آراستہ کئے،ان تمام حقائق سے ہر ذی شعور شہری آگاہ ہے، بقول حفیظ جالندھری ، وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی ۔ اس غریب پرور شہر کی بدنصیبی کا آغاز اُس وقت ہوا جب انتخابات میں آمر جنرل ایوب خان کی جنیاتی کا میابی کے دیوتائی جشن کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر بجلی عمرایوب کے والد گرامی نے اپنی فوجِ ظفر موج کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح کے حامی نہتے مہاجروں کی بستیوں پر یلغار کی، اس شخص نے اپنے بعض پختون پتھاریداروں کے باوصف اسے پختونوں کا لشکر باور کرایا۔ درحقیقت گوہر ایوب نہ تو اُس وقت پختونوں کے نمائندے تھے اور نہ آج ہیں۔ان صدارتی انتخابات میں پختونوں نے مرحوم و مغفور ولی خان کی قیادت میں محترمہ فاطمہ جناح کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ ولی خان مرحوم ان انتخابات میں آمر مطلق کیخلاف محترمہ فاطمہ جناح کے صوبہ سرحد (پختونخوا) میں انتخابی مہم کے نگراں تھے۔

لیکن پھر اسی کراچی کے دروبام نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہ لوگ جو خود کو مہاجر قیادت کا ستونِ غیر متزلزل کہتے ہیں (اور ایسا ظاہر بھی ہوا) وہ ہزارہ صوبے کی حمایت میں اُنہی گوہر ایوب کے رفیق کار تھے جن پر کراچی کو تاراج کرنے کا الزام تھا۔ بنا بریں آج بھی اُسی گوہر ایوب کے صاحبزادے عمرایوب کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ راقم کی نظر میں کراچی کے خلاف ڈکٹیٹر ایوب خان کا یہ ڈاکٹرائن اس لئے زہر قاتل بنا کہ اُس دن کے بعد سے آج تک یہاں مسکن پذیر لسانی اکائیاں شہر کی تعمیر و ترقی کی بجائے اپنی توانائیاں زیادہ تر ایک دوسرے کیخلاف بروئے کار لاتی رہی ہیں۔ نوگو ایریا ز بن گئے، صاف نظر آتا ہے کہ کو ن سا علاقہ کس کے دستِ عنایت یا مشقِ ستم تلے ہے۔ اس وجہ سے بھی جس کے ہاتھ میں جو اختیار آیا تو ذاتی مقاصد کے ساتھ ساتھ اُسے گروہی و جماعتی مفاد کے تناظر میں استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت میئر عبدالستار افغانی اور بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کیپٹن فہیم الزماں کے، ہمیں کوئی اور دور ایسا نظر نہیں آتا جس میں وسائل انفراسٹرکچر سمیت بنیادی مسائل پر صرف کئے گئے ہوں۔ 

شہر کا زیادہ تر نظام اُسی دور کا استوار شدہ ہے اس کے بعد اس میں نئے حالات کے مطابق کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ لسانی تفریق کی ابتدا ایک آمر نے کی جسے اس کے بھائی بند جنرل ضیا الحق اور پھر پرویز مشرف نے بڑے سلیقے سے آگے بڑھایا، نیز آمر ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے تمام تر جوہر کے ساتھ اس کا خیال رکھا، انہی کے دور میں مہاجر سندھی فسادات ہوئے۔ بیگانگی کے اس ماحول کو پروان چڑھانے کا اصل مقصد جمہوریت کی نفی تھا۔ موقع پرست سیاستدان جن کے کام آئے۔ ان نظام کش کوششوں کا اصل ہدف پورا ملک بالخصوص کراچی اس لئے بھی ٹھہرا کہ یہی شہر ہر جمہوری تحریک کا روح رواں تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ جس ملک میں مستحکم جمہوری نظام نہ ہو ، اور کام ایڈہاک ازم پر چلایا جاتا ہو، اُس میں مافیاز اتنی ہی آزاد ہوتی ہیں جتنی پاکستان میں ہیں۔ اس تناظر میں کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ جیسے سفید ہاتھی سمیت تمام سیاسی و غیر سیاسی ان مافیاز سے بھلا کراچی جیسی سونے کی چڑیا کیونکر بچ سکتی تھی سو جو حال ہے ، سامنے ہے۔

اجمل خٹک کثر

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments