Karachi

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

کراچی کی قسمت کبھی نہیں بدلے گی

کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز رکھنے والا یہ شہر اُن کی وفات سے یتیم اور لاوارث ہو گیا تھا۔ سویلین حکومتوں کے دور میں تو یہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کا دارالحکومت بنا رہا لیکن جیسے ہی کسی ایک غیر سویلین حکمراں کو برسراقتدار آنے کے بعد موقعہ ملا اُس نے اِس شہر سے یہ اعزاز چھین لینے پر مکمل عملدرآمد بھی کر لیا۔ پھر کیا تھا یہ شہر کسی پلاننگ اور منصوبے کے بغیر اپنے طور پر خود ہی پھیلنے اور بڑھنے لگا۔ پانی، سیوریج اور بجلی کی فراہمی کے کسی باقاعدہ نظام کی تشکیل کے بناء ہی یہ خود رو جھاڑیوں اور پودوں کے طرح جہاں چاہا وسعت پاتا رہا۔ ایوب خان دور کے بعد پہلی جمہوری اور سویلین حکومت جس شخص کی بنی وہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تھی، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کی تباہی و بربادی کے اصل داستان شروع ہی اُن کے دور سے ہوتی ہے۔ ویسے تو انھیں کراچی سے بظاہر بہت محبت تھی لیکن یہاں چونکہ اردو بولنے والوں کی تعداد تمام شہروں سے زیادہ تھی لہٰذا انھیں یہ بات شاید پسند نہیں آئی اور اپنی پہلی فرصت میں انھوں نے اردو زبان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

سندھی زبان کو صوبے کی زبان قرار دینا کوئی غلط اور ناجائز کام نہیں تھا لیکن سرکاری نوکریوں میں سندھ کے شہری اور دیہی کی تفریق کر کے انھوں نے اِس صوبے سے وہ زیادتی کر دی جس کا خمیازہ نہ صرف اردو بولنے والے لوگ ہی بھگت رہے ہیں بلکہ اِس صوبے میں بسنے والے کروڑوں لوگ بھی اِس کی ترقی و خوشحالی سے محروم ہوتے چلے گئے۔ قابلیت اوراہلیت کا جنازہ جس احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے نکالا گیا تھا ، وہ احساس محرومی آج چالیس پچاس سال گزر جانے کے بعد میں ختم نہیں ہو پایا ہے۔ اندرونِ سندھ کے لوگ آج بھی اُسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، جو اِس کوٹہ سسٹم سے پہلے گزار رہے تھے۔ کراچی کی اہمیت وافادیت کم کر کے کسی نے سندھ کی اہمیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ اِسے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مقابلے میں بھی کئی درجہ کم کر دیا۔ دس سال کے لیے نافذ کیا جانے والا یہ کوٹہ سسٹم آج 46 برس گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو سکا ۔


اسلام آباد میں تمام حکومتوں کی مجبوریاں اورمصلحتیں اِسے ختم کرنے کی راہ میں حائل ہوتی رہیں۔ وفاق میں حکومت کرنے والی کسی بھی جماعت کے مفادات کراچی شہر کے باسیوں سے جڑے نہیں رہے ہیں۔ 2018 تک یہاں الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کا تعلق کسی بھی ملک گیر بڑی پارٹی سے نہیں رہا۔ لہٰذا اِس کی ترقی وخوشحالی کسی کو بھی مقدم نہ تھی، پھر یہاں کے اردو بولنے والوں کی حمایت میں جس سیاسی پارٹی نے 30 سال تک مہاجر تنظیم کے نام پر ووٹ حاصل کیے اُسی نے اِس شہر کا مزید حال بگاڑ کر رکھ دیا اور اِسے ایک جھگڑالو، بھتہ خور اور دہشت پسند لوگوں کے شہر سے منسوب کروا دیا۔ تیس سال تک یہ شہر لوٹ مار، قتل وغارت گری اور خونریزی کا مرکز بنا رہا۔ کہنے کو پرویز مشرف ایک غیر سویلین حکمراں تھے وہ چاہتے تو اِس شہر کو آسانی سے امن کا گہوارہ بنا سکتے تھے لیکن انھوں نے بھی اپنی ساری قوت اور طاقت اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں صرف کر دی۔ مہاجر ہونے کے ناتے کراچی سے انھیں ہمدردی ضرور تھی لیکن انھوں نے بھی ایم کیوایم کو استعمال کیا۔ 12 مئی 2007 کا اندوہناک واقعہ انھی کے دور میں پیش آیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی 2008 سے متواتر سندھ پر حکومت کر رہی ہے لیکن اِس پارٹی نے ابھی تک اُن لوگوں سے بھی وفا نہیں کی جن سے وہ ووٹ لے کر حکومت کیا کرتی ہے تو پھر کراچی کی بھلا کیونکر وہ کوئی خدمت کرے گی۔ کراچی شہر کی سڑکوں کی جوحالت ِزار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔سوائے چند بڑی شاہراہوں کے شہرکی تمام سڑکیں ایک عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نہ سندھ حکومت کوئی توجہ دے رہی ہے اور نہ شہری حکومت۔ شہری حکومت تو چار سال ہو گئے صرف اپنے اختیارات اور فنڈز کا رونا ہی روتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مخاطب ہو کر درست ہی کہا کہ جب اختیارات نہیں ملے تو میئرکی سیٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ میئر کراچی وسیم اختر وہاں تو کچھ نہیں کہہ سکے لیکن دوسرے دن باہر نکل کر اپنی خجالت یوں دور کر رہے تھے کہ ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ میئر شپ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ 

گویا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھا جائے کہ کوئی کام بھی نہیں کرنا ہے اور اقتدار چھوڑنا بھی نہیں ہے۔ یہاں جس کسی کو چھوٹی سی چھوٹی بھی پوسٹ مل جائے وہ اُس سے الگ ہونا نہیں چاہتا۔ اُسے کوئی نہ کوئی مفاد تو ضرورعزیز ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کراچی کی ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے وہ دنیا کے کسی شہر میں بھی نہیں ہو گا۔ 12 سال سے سندھ حکومت ہر سال سالانہ بجٹ میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ایک خطیر رقم ضرور رکھتی ہے اور 500 نئی بسیں لانے کا وعدہ بھی ضرور کرتی ہے لیکن کیا مجال کہ کسی برس بھی یہ وعدہ وفا ہو جائے۔ گرین لائن کا جومنصوبہ میاں نوازشریف شروع کر گئے تھے اُس میں صوبے کی حکومت کی دلچسپی رتی برابر بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈھائی تین سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ پانی اور سیوریج کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ 

بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کے الیکٹرک کے نااہلی کی وجہ سے یہاں کے شہری ایک اور عذاب سے گذر رہے ہیں لیکن نہ صوبائی حکومت اور نہ وفاقی حکومت کو اِس مسئلہ کے حل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی ہے۔ صرف پریس کانفرنسیں کر کے اور زبانی جمع خرچ کر کے وزراء عوام کو تسلی اور دلاسہ دیکر چلے جاتے ہیں مگراُن کے جانے کے بعد کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی۔ نہ لوڈ شیڈنگ کم ہوتی ہے اورنہ کوئی اورمسئلہ حل ہوتا ہے۔ اب یہ یہاں کی صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ اِن دونوں پروجیکٹس کو تیزی سے آگے بڑھائے ۔ کراچی کے نظام کوچلانے کے لیے کبھی کبھار ہمارے یہاں گورنر راج نافذ کرنے یا شہر کو وفاق کے حوالے کرنے کی باتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ 

اول توآئین کے تحت ایسا کرنا ناممکن ہے اور اگر زبردستی بھی کر لیا جائے تو عدالتیں اُسے معطل یا منسوخ ضرور کر دیں گی۔ وفاق سے اپنے کام تو ہو نہیں پارہے تو وہ بھلا دوسرے پنگے اپنے سر کیوں لے۔ وفاق کی اپنی کارکردگی بھی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ فخر سے اُس کا کریڈٹ اپنے نام سجا سکے۔ ایسے میں کراچی کے مسائل حل کرنے کا ٹھیکہ وہ بھلا اپنے ذمے کیوں باندھے گی۔کراچی کے لیے خان صاحب نے ایک سال پہلے 162 ارب کے فنڈز دینے کا وعدہ کیا تھا وہ تو ابھی تک پورا نہیں کر پائے ہیں تو بھلا سارے شہر کے مسائل کو اکیلے کیسے حل کر پائیںگے۔ لہٰذا عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کراچی کو وفاق اپنی تحویل میں لے لیگا، یہ سب سیاسی اسٹنٹ ہوا کرتے ہیں۔ وقت گذارنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر منصور نورانی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments