Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/
کراچی میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی طوفانی بارشوں نے ملک کے میٹروپولیٹن کا جو ’’شہر آشوب‘‘ پیش کیا ہے اس کی درد انگیزی تاریخی ہے اور پہلی بار اسٹیک ہولڈرز نے محسوس کیا ہے کہ اس شہر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ غیر ملکی طاقتوں کی کارستانی نہیں بلکہ اس بربادی میں اپنوں کا ہاتھ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ بارشوں نے لاکھوں شہریوں کے گھر تباہ کیے، پانی کے سیلابی ریلے غریب مکینوں کا سب کچھ بہا کر لے گئے، سرجانی، اورنگی، کورنگی، نیو کراچی، ناظم آبا د سمیت شہر کی بیشتر کچی آبادیاں، مضافاتی اور نشیبی علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہوا ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، برساتی نالے چوک ہو گئے ہیں، نالوں پر تعمیرات کھڑی ہیں، کس نے اجازت دی؟ کچرے کے ڈھیر جو ٹھکانے نہ لگ سکے وہ بارش کے تیز سیلابی ریلوں میں دوبارہ شامل ہو گئے۔
کراچی ان دنوں آفت زدہ شہر کہلانے کا مستحق ہے، رین ایمرجنسی ایک چھوٹا سا لفظ ہے، انتظامیہ کے کثیر جہتی انتظامات اور نالوں کی صفائی کے جتنے دعوے تھے وہ موسلا دھار بارشوں میں بہہ گئے، کہیں بھی کراچی کا فرسودہ، نام نہاد انفرااسٹرکچر اور اس کی باقیات کا کوئی نام و نشان نہیں، اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشیں کراچی کی تباہی، بربادی اور شہریوں کی لاوارثی، بے بسی اور مجبوریوں پر فریاد کناں ہیں، کبھی بھی ایسی صورتحال پیش نہیں آئی جب نکاسی آب نے بارش کو اتنا بڑا عذاب بنا دیا ہو کہ سارا سسٹم بیٹھ گیا۔ کراچی کا بڑا حصہ بارش کے پانی میں ڈوب گیا۔ بلیم گیم ابھی بھی جاری ہے مگر اتنا تو ہوا کہ اسٹیک ہولڈرز زود پشیمانی کے ساتھ شہر کی بھلائی، بحالی اور بارش کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اجتماعی سوچ کا مظاہرہ کرنے پر فکرمند دکھائی دینے لگے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکمرانی کا کھوکھلاپن، بے نام سی گڈ گورننس، سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی کے باعث کوئی حکومت شہر کو اون کرنے کا کلچر اور تہذیبی رمق پیدا نہیں کر سکی، گزشتہ چند روز میں سیاستدانوں، بلدیاتی اداروں کے سربراہوں، صوبائی حکومت اور مقامی حکومت کے حکام میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ کراچی حکومتوں کے تجاہل عارفانہ، مجرمانہ غفلت اور شہریوں کی محرومیوں کے دوش بدوش مگر ترقی کے ایک جامع ماسٹر پلان کے بغیر ہی چل رہا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے 10 ارب ڈالر (17 کھرب روپے) درکار ہیں جو نہ سندھ کے پاس ہیں اور نہ ہی وفاق کے پاس ہیں، منصوبہ بندی کے بغیر بڑی تعمیرات کراچی کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کے ایم سی کے پاس وسائل کی کمی ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ کراچی سے کچرا اٹھانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے، حکومت سندھ کے مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی کو توڑنے کی سازش نہیں ہو رہی، جب تک کراچی کا ایک لیڈر، ایک ایڈمنسٹریٹر نہیں ہو گا یہ بلیم گیم چلتا رہے گا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ فوری طور پر بلدیاتی الیکشن ہونے چاہئیں، کراچی کی تقسیم در تقسیم کرنا صحیح نہیں۔ سابق میئر کراچی مصطفی کمال نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو معلومات صحیح فراہم نہیں کی گئیں۔ اختیارات اور وسائل وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ کر پارک ہو گئے، تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اے این پی کے رہنما شاہی سید نے کہا کہ کراچی کو خصوصی پیکیج اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، اٹھارہویں ترمیم کی خوبیاں عوام تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ سب کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے، اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے تو چاہے سندھ حکومت ہو یا وفاقی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مسائل پر گفتگو کا جو استحقاق میئر کے پاس ہے اتنا ہی کراچی کے عوام ان سے حقائق معلوم کرنے کا حق رکھتے ہیں، میئر کراچی کو اپنے دفاع میں کئی سوالات کے جواب دینا پڑے، وہ اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرتے رہے، مگر ان سے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا یہ شہر چند بنیادی سوالات کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان سوالات کے تناظر میں ہی کراچی کی انفرا اسٹرکچرل بربادی کی اصل کہانی سامنے آسکتی ہے۔ میئر نے میڈیا کو بتایا کہ جب وہ بلدیہ کراچی یا مقامی حکومت کی سربراہی کے لیے ایکٹیو ہوئے، تو انھوں نے کے ایم سی کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی اور کہا کہ سب سے پہلے اس کی عمارت کی کایا پلٹی مگر میئر کے ان اقدامات کا عوام سے کچھ تعلق نہ تھا، سب سے بڑا عوامی سوال یہ تھا کہ بحیثیت میئر انھوں نے فراہمی ونکاسی آب کے شفاف اور فالٹ فری سسٹم کے لیے کیا اقدامات کیے، اس شہر کو بارشوں نے بہت نقصان پہنچایا مگر بنیادی سوال نکاسی آب کا ہی ہے، نالوں کی صفائی کتنی ہوئی، یہ تو این ڈی ایم اے کی برکت سے کچھ نالے صاف ہوئے مگر شہریوں کے ذہنوں میں کراچی کے لیے ایک مربوط، سائنٹیفک، مضبوط اور قابل عمل نکاسی و فراہمی کے نظام کی موجودگی تھی۔
کچرے کو ٹھکانے لگانے میں کتنی کامیابی ہوئی، کے ایم سی کے ملازمین، کنڈی مینوں اور خاکروبوں کے لیے صفائی کی کٹس کی فراہمی کا معیار کیسا تھا، کئی ملازمین بند گٹروں کی صفائی کے لیے نیچے اترے تو گیس بھر جانے کیے باعث ان کی اموات ہوئیں، ان کی داد رسی اور حفاظت کا انتظام کتنا محفوظ اور دیرپا تھا، کہا جاتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اور میونسپل شعبوں میں گھوسٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد تھی ان کی تنخواہوں پر میڈیا میں خبریں آئیں، سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بھی گھوسٹ ملازمین اور ان کی تنخواہوں کا سوال اٹھایا، میئر سے عوام اس لیے بھی حقائق معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ان کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے۔ وہ ایک معتبر حوالہ رکھتے ہیں، جب لندن نشین بانی تحریک کا کراچی میں طوطی بولتا تھا تو وسیم اختر متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما تھے، کراچی کی سیاست اور مقامی حکومت اور محکمہ داخلہ کے مشیر کی حیثیت میں وہ حقائق سے آشنا شخص شمار کیے جاتے ہیں، کراچی کے شہری جاننا چاہتے ہیں اور ایک خوش گمانی وسیم اختر کے ساتھ ابھی بھی سفر کرتی ہے، میئر بابائے شہر ہوتا ہے، اس کو کس نے بے اختیار کیا اور ان کے بقول کراچی کا صرف 10 فیصد حصہ ان کے پاس تھا جب کہ 70 فیصد وفاق یا دیگر بااختیار اداروں کے تصرف میں تھا تو وہ اپنے زیرانتظام دس فی صد کے ترقیاتی انڈیکس سے عوام کو کیا فیض پہنچاتے رہے۔
میئر پر سب سے بڑی جرح یہ کی جاسکتی ہے کہ انھیں جتنے فنڈز ملے کے ایم سی کا جو بجٹ تھا کیا وہ شہر کی مجموعی ترقی اور اس کی بے مثال خوبصورتی میں استعمال ہوا، یہ بھی ملین ڈالر سوال ہے کہ ایم کیو ایم نے تین عشروں تک کراچی میں بلا شرکت غیرے حکمرانی کی، اس پورے عرصے میں تو ایک عظیم ’’رومن شہر‘‘ کی بنیاد ڈالی جاسکتی تھی، متحدہ تو اس طویل عرصے میں کراچی کو ملک کے دیگر شہروں کے لیے مثال بنا سکتی تھی۔ یہ قدرت کی طرف سے متحدہ کو ایک زبردست چانس کا ملنا تھا، پھر کیا ہوا کہ شہر آج تک کی مسلسل بارشوں سے موئن جو دڑو بن گیا ہے؟ کوئی جواز اور عذر ہے کسی کے پاس۔ میئر کراچی سے عوام کی خوش گمانی لائق تحسین ہے، شہر کے متعدد اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ بیٹھ کر سندھ حکومت سے گلے شکوے کرتے ہوئے ایک ’’حل‘‘ کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، اچھی بات ہے، مگر حقائق تلخ ہیں، پی پی پی ، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، اے این پی اور دیگر سماجی اور سیاسی گروپس کو کراچی کے بحران اور تباہی سے نجات کا کوئی ایسا تیر بہ ہدف نسخہ تلاش کرنا ہے جو شہر کو بیوارثی کے احساس اور غیر انسانی صورتحال سے نکالے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں بے ہنگم تعمیرات، تجاوزات، قبضہ مافیا اور سرکاری زمینیں ہتھیانے کے ناسور سے بھی نجات دلائی جائے، یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں سرکاری زمینیں کوڑیوں کے مول بیچی جاتی رہی ہیں، مگر اب وقت آگیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ ان سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ اور خرید وفروخت پر پابندی لگانے کے لیے قانونی پیش رفت کریں۔ کسی بھی شخصیت یا نجی ادارے کو سرکاری زمین کی لیز دی جائے اور نہ ہی الاٹمنٹ دی جائے، وزیراعلیٰ کو سرکاری زمین الاٹ کرنے کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا جائے کیونکہ یہی کرپشن کے زمیں دوز راستے ہیں، بیوروکریسی، اسمگلرز، کرمنلز، دولتمند خاندان، مفاد پرست عناصر، لینڈ مافیا، بلڈرز پولیس کی ملی بھگت سے سرکاری زمینوں کو مال مفت دل بے رحم کی طرح ہڑپ کر لیتے ہیں، سرکار خود اپنی زمین کے جائز استعمال اور اس کی افادیت کا پیمانہ اور معیار مقرر کرے جس سے چائنا کٹنگ اور قبضہ گروپوں کی چیرہ دستی کو روکا جاسکے گا۔
کراچی کی دردناک صورتحال وفاق، سندھ حکومت، بلدیہ، میئر کراچی اور وفاق کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، سیاست دانوں، اربن ماہرین اور سول سوسائٹی کے لیے بارشیں چشم کشا ہیں، عوام سسٹم کی سنگدلی سے بیزار ہیں، ان کی زندگیاں لٹ چکیں، بچے، بوڑھے، جوان، خواتین سب ایک dehumanized یعنی غیر انسانی ماحول کے قیدی ہیں، انھیں کورونا نے اذیتوں سے دوچار کیا، ریاست و حکومت سے عوام زندگی کی بھیک نہیں اکیسویں صدی کی جدید سہولتیں مانگتے ہیں۔ ایسی حکومت سامنے آنی چاہیے جو کراچی کے عوام سے کہے مانگ کیا چاہیے؟
0 Comments