Karachi

6/recent/ticker-posts

کراچی…کورونا سیاست کا شکار

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی پھر سے وفاق اور سندھ کے درمیان سیاست کا شکار ہو گیا ہے۔ اس بار کورونا وائرس پر سیاست ہو رہی ہے۔ جس کے ہلاکت خیز ڈیلٹا ویئرنیلٹ کراچی میں بے قابو ہوا جارہا ہے۔ سندھ حکومت نے این سی او سی کے تحفظات کے باوجود شہر میں مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا ہے، لیکن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما اس پیچیدہ ایشو کی نوعیت جانے بغیر اس پر سیاست کر رہے ہیں۔ کراچی کو فوری طور پر وفاق اور سندھ کے تعاون سے ہیلتھ ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ افراد کی ویکسی نیشن ہونا چاہئے۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے متجاوز ہے لیکن 2017 کی مردم شماری میں اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ آبادی کو دو کروڑ سے بھی کم دکھایا گیا۔ اب این سی اوسی کا آئندہ 5 ماہ میں ہدف 5 کروڑ افراد کی ویکسی نیشن ہے لیکن کراچی کو خصوصی ایمنسٹی پیکیج کی ضرورت ہے جن کا کاروبار لاک ڈائون کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا یہ کہا غلط نہیں کہ مکمل لاک ڈائون سے بیروزگاری بڑھے گی، لیکن اس کے جواب میں دلیل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ڈیلٹا ویئرنیلٹ پر قابو نہ پایا گیا تو ہلاکتوں کی وجہ سے بیروزگاری سے زیادہ ہولناک صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کراچی کا ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ملک کے دیگر حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد کی شہر کی جانب بلا روک ٹوک نقل مکانی ہے۔ خروج اور داخلے کے مقررہ مراکز نہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک کا سب سے زیادہ غیرمحفوظ شہر بن گیا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس موضوع پر سیاست کھلنے کے بجائے کراچی میں زیادہ سختی سے قواعد وضوابط اور ایس او پیز کو لاگو کیا جائے، جیسے صوبائی حکومت نے ویکسین نہ لینے والوں کی سم اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ڈاکٹروں کی یہ بھی تجویز ہے کہ بڑے میدانوں اور پارکس میں عارضی ویکسی نیشن سینٹرز بنائے جائیں۔

ڈائیوروں اور کنڈیکٹروں کے پاس ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ ہونے پر منی بس اور بسوں کو محدود مسافروں کے ساتھ چلانے کی اجازت دی جائے۔ جس طرح ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر فضائی سفر کی اجازت نہیں ہوتی، اس طرح ریلوے سفر کے لئے بھی اسے آزمایا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ سیاست کے بجائے عوامی خدمت پر توجہ دیں، اگر وزیراعظم عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے باہمی تنازعات سے دامن بچا کر این سی او سی کو سندھ حکومت سے ایشوز طے کرنے میں مدد کی ہوتی تو معاملہ حل ہو جاتا، لیکن کورونا وائرس پر بھی سیاست کی جارہی ہے۔ نتیجہ کراچی کے شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے وفاقی وزیر اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان سے خوشگوار تعلقات ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت نے فیصلہ کرنے سے قبل این سی او سی کو اعتماد میں لیا تھا ، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ این سی او سی کے سربراہ نے صوبائی حکومت کو لاک ڈائون کے حوالے سے سخت اقدامات اور فیصلے نہ کرنے کے لئے بھی کہا تھا۔

گزشتہ سال جب وفاقی حکومت نے این سی او سی تشکیل دی تھی تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا تھا، لیکن فروری 2020 میں پہلا کورونا وائرس کیس سامنے آتے ہی مرکز اور سندھ میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ سندھ حکومت نے سرحدیں بند کرنے اور پروازوں پر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ سندھ حکومت کے گزشتہ سال ابتدا ہی میں لاک ڈائون کے فیصلے سے کیسز کم تعداد میں ہوئے، اس وقت سرحدی بند ہوئیں، نہ پروازوں پر پابندی لگی اور قرنطینہ مراکز بھی قائم نہیں کئے گئے، اس کے پھیلائو نے خطرناک صورتحال پیدا کر دی تھی، لیکن پاکستان کی دیہی سے زیادہ شہری آبادیاں متاثر ہوئیں۔ دوسری ملک کی نمایاں آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذا پاکستان میں بھارت، امریکا، برطانیہ، جرمنی اور اسپین جیسے تشویشناک حالات پیدا نہیں ہوئے۔ کراچی کا مخمصہ یہ ہے کہ اس کے شہری اور انتظامی معاملات بھی سیاست کی نذر ہوئے۔ دراصل کسی نے بھی اس شہر کے حقیقی مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ منتخب و مضبوط بلدیاتی ادارے نہیں ہیں۔

مظہر عباس 

بشکریہ روزنامہ جنگ


Post a Comment

0 Comments