Karachi

6/recent/ticker-posts

کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا ساحلی شہر اور ملک کا گیٹ وے کہلاتا ہے۔ 1998 سے شہر کی آبادی میں 4.2% سالانہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے 2030 تک آبادی 31.6 ملین سے تجاوز کر جائے گی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہر میں بنیادی سہولتوں خاص طور پر ٹرانسپورٹ سسٹم پرشدید دبائو ہے جسے ابھی تک جدید خطوط پر منظم اور تشکیل نہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ٹرانسپورٹ سسٹم عوام کی بڑھتی ہوئی سفری ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ 1964 میں کراچی سرکلر ریلوے یعنی KCR کو ابتدائی طور پر 26.56 کلومیٹر کے حصے میں ڈرگ روڈ اور وزیر مینشن اسٹیشنوں کے درمیان غیر الیکٹرک ایٹ گریڈ سنگل ٹریک ریلوے کے طور پر چلایا گیا تھا، 1970 میں اسے وزیر مینشن سے کراچی سٹی تک بڑھایا گیا۔ روٹ کی کل لمبائی 29.32 کلومیٹر ہے جس میں 16 اسٹیشن اور 24 لیول کراسنگ ہیں۔

کے سی آر مین لائن پر ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوتا ہے اور شاہراہ فیصل عبور کرنے کے بعد یہ گلشن اقبال، گلستان جوہر، ناظم آباد، لیاقت آباد، سائٹ کے آبادی والے علاقوں سے گزرتا ہے اور آخر کار آئی آئی چندریگر روڈر پر کراچی سٹی اسٹیشن سے جا ملتا ہے۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں یہ کے سی آر شہر کے دیگر علاقوں سے سائٹ ایریا، کراچی بندرگاہ اور اس کے آس پاس کے کاروباری اور تجارتی علاقوں تک مسافروں کی آمدو رفت کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ 1985 کے دوران کراچی سرکلر ریلوے نے روزانہ 93 ٹرینوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ 6.4 ملین مسافروں کو سفری سہولت فراہم کی اور پھر کراچی سرکلر ریلوے کی حالت دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی گئی اور یوں 1985 کے بعد اس کے مسافرو کی تعداد بھی گھٹتی چلی گئی اور بالآخر دسمبر 1999 میں ٹریفک کے لیے کے سی آر بند کر دی گئی، حالانکہ یہ سسٹم شہر کے تمام اہم روٹس اور ٹرانزٹ کوریڈورز پر مسافروں کو سفری سہولت فراہم کر رہا تھا۔

کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور جدت کی سفارش تقریبا تمام ٹرانسپورٹ سٹڈیز میں کی گئی ہے اور دسمبر 1999 میں بند ہونے کے بعد گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کراچی میں نقل و حمل اور ٹریفک کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیے گئے منصوبوں میں کے سی آر سمیت کراچی میں ماس ریپڈ ٹرانزٹ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن اسٹریٹیجی (JICA) کی جانب سے 2008 سے 2013 تک ایک جدید شہری میٹرو ریل سسٹم کے طور پر کے سی آر کی بحالی اور ترقی کے لیے ایک جامع مطالعہ کیا گیا اور اس کی حتمی رپورٹ فروری 2013 میں شائع کی گئی۔ اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور ایک طرف روزمرہ کے مسافروں/ پبلک ٹرانسپورٹ کے صارفین کے لیے حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں اور دوسری طرف کراچی سرکلر ریلوے کے لاوارث روٹ پر تجاوزات اور ناجائز قبضہ مافیا نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لیے۔ معزز سپریم کورٹ آف پاکستان نے 06 مارچ 2020 کو کے سی آر کی بحالی کے حوالے سے جو حکم دیا ہے اس کے دو حصے ہیں:

الف۔ کراچی سرکلر ریلوے کی ویسے ہی بحالی جیسا کہ یہ ختم ہونے سے پہلے تھا، دوسری بات یہ کہ ب۔ سی پی ای سی کے تحت منصوبہ بندی کے مطابق کے سی آر کی مسلسل جدت عدالت عظمی کی ہدایت کے پہلے حصے کی تعمیل کے لیے، پاکستان ریلوے نے فوری طور پراپنی تیاریاں شروع کر دیں اور کے سی آر کو 19 نومبر 2020 سے پپری سے کراچی شہر (50 کلومیٹر) تک آپریشنل کر دیا گیا ہے۔ کراچی شہر سے اورنگی اسٹیشن تک مزید 14 کلومیٹر لمبی ٹریک بھی تیار کر کے ٹرین آپریشن اورنگی اسٹیشن تک بڑھا دیا گیا ہے۔ 10 فروری 2021 سے مزید وسعت کے تحت کراچی سرکلر ریلوے میں لیول کراسنگ ختم کر کے اور ہیڈ اور انڈر پاس تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت دھابیجی اسٹیشن سے اورنگی اسٹیشن تک روزانہ کی بنیاد پر دو، کے سی آر ٹرینیں چل رہی ہیں، اور اوسط 10 ہزار سے زائد مسافروں کو سہولت مل رہی ہے۔ عدالت عظمی کی ہدایت کے دوسرے حصے کے حوالے سے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت ایک جدید شہری ریلوے کے طور پر کراچی سرکلر ریلوے کی ترقی، آپریشن اور دیکھ بھال کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی اور ٹرانزیکشن ایڈوائزری سروسز کے لیے کنسلٹنسی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت جدید شہری ریلوے کے طور پر کے سی آر کی ترقی، آپریشن اور دیکھ بھال کے لیے کنسلٹنٹس کی جانب سے پیش کردہ فزیبلٹی اسٹڈی اور بزنس ماڈل بھی جانچ پڑتال اور منظوری کے لیے پیش کیا گیا ہے جس کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں۔ کراچی جدید سرکلر ریلوے کی نمایاں خصوصیات پروجیکٹ کا زرتخمینہ 207 ارب روپے ۔2۔ گرے انفراسٹرکچر کا تخمینہ ، 96 ارب روپے، مدت تعمیر 36 ماہ، کنسیشنری کی جانب سے مدت آپریشن 30 ماہ، روازنہ مسافروں کی تعداد، تکنیکی آپریشنل ، ٹریکس، دو خصوصی ٹریک، گیج 1435 mm (سٹینڈرڈ گیج)، ٹریک کی لمبائی، 44 کلومیٹر، حد رفتار،80 کلو میٹر فی گھنٹہ ، کم سے کم موڑ کا قطر 400 میٹر، زیادہ سے زیادہ گریڈئنٹ، 3.5 %،ریل سے پلیٹ فارم کی بلندی ،1100 ملی میٹر، اسٹیشن 18 زمین سے بلندی پر، 12 زمین پر، بجلی کا حصول، رولنگ اسٹاک ، 4 کاریں فی ٹرین۔ (کل 27 ٹرینیں بشمول دو اضافی ٹرینوں کے)، فی ٹرین مسافروں کی گنجائش 814، ای۔ کنسلٹنٹس ایسی جدید سرکلر ریلوے پر کام کر رہے ہیں جو اس مسئلے آسانی سے حل کرے اور اس کے زیادہ معاشی فوائد بھی سمیٹے جا سکیں۔

ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ جدید کے سی آر کو لائٹ ریل سٹینڈرڈ گیج رولنگ اسٹاک کی بنیاد پرتشکیل دیا جائے ااور اس کا پی سی ون تیار کیا جائے جس کی لاگت 22.963 ارب روپے ہو، تیار کر کے 22 اگست 2021 کو منظوری کے لیے وزارت ریلویز میں پیش کیا گیا۔ پی سی -1 کے دائرہ کار کے تحت کے سی آر لوپ سیکشن سے لیول کراسنگ کے خاتمے کے لیے ٹریک کی ساخت کے تجویز کردہ ڈھانچے میں زیر مین ایک کلو میٹر، لمبائی، 04 ایلیویٹڈ ٹریکس 12.5 کلو میٹر، ایک روڈ انٹرچینج اور دو کلورٹس شامل ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے 10 اگست 2020 کے احکامات کے تحت ہدایت کی ہے کہ ایف ڈبلیو او کو انڈر پاس کی تعمیر کا کام معاہدے کی تقریبات کی تاریخ سے 6 ماہ کے اندر اندر مکمل کرنا چاہیے ان کا اس معاملے میں وسیع تجربہ اور مہارت ہے۔

عبد الحمید   
بشکریہ ایکسپریس نیوز 

Post a Comment

0 Comments