Karachi

6/recent/ticker-posts

وہ کراچی کہیں کھو گیا

وہ کراچی کہیں کھو گیا جس کا پورے برصغیر میں شہرہ تھا۔ یہاں امن و امان کی صورت حال مثالی تھی۔ قتل و غارت گری کو تو چھوڑیے چوریاں اور ڈکیتیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ شہر کی صفائی ستھرائی کا یہ حال تھا کہ یہاں کی سڑکیں روز صبح و شام دھلا کرتی تھیں۔ اس شہر کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ یہاں کے شہری اپنی زندگی خوشگوار طریقے سے گزارتے اور کھیل کود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کرکٹ ، ہاکی ، فٹ بال ، بیڈمنٹن اور باکسنگ یہاں کے مقبول کھیل تھے۔ یہاں کے پارک اور گراؤنڈ صاف ستھرے اور ہر قسم کے پودوں اور پھولوں سے مزین تھے۔ یہاں ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ اردو مشاعرے اکثر منعقد ہوتے رہتے تھے جن میں شرکت کے لیے برصغیر کے نامور شعرا یہاں تشریف لاتے تھے جن میں جگر مراد آبادی ، سیماب اکبر آبادی ، حفیظ جالندھری، ماہر القادری ، احسان دانش اورکئی مشہور ہندو شعرا شامل تھے۔ 1940 میں منعقد ہونے والی ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی بھی تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر آپ کراچی کے ساحل سمندر پر واقع تفریحی مقام کلفٹن دیکھنے گئے۔ آپ اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ نے بے ساختہ یہ قطعہ ارشاد فرمایا تھا:

سنتا تھا کراچی کی بہت تعریفیں
سمجھا تھا کہ ایک نفیس بندرگاہ ہو گا

دیکھا جو کلفٹن کو تو یہ سوچ ہے اب
کیا باغ ارم سے بھی بہتر ہو گا

کیٹرک ہال اور جمشید میموریل ہال، بندر روڈ میں اکثر ڈرامے دکھائے جاتے تھے، کئی سینما بھی موجود تھے جن میں بمبئی اور لاہور کی بنی ہوئی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ خالق دینا ہال میں مشاعرے، مذہبی اجتماعات اور سیاسی جلسے منعقد ہوتے تھے۔ یہاں کے عوام کی یکجہتی کا یہ حال تھا کبھی ہندو تو کبھی مسلمان میئر منتخب کیا جاتا تھا، گوکہ شہر میں پارسیوں کی آبادی کم تھی مگر ایک پارسی کاروباری شخصیت جمشید نسروانجی مہتا کئی برس تک اس شہرکے میئر رہے۔ انھوں نے اس شہر کی بے مثال خدمت کی۔ انھوں نے اہل کراچی کو ایک مشورہ دیا تھا کہ ہر شخص کو صبح اٹھ کر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنا چاہیے کہ یہ شہر میرا ہے اور اس کی خدمت کرنا میرا فرض ہے، اگر پچاس شہری بھی اس مشورے پر ایمانداری سے عمل پیرا ہو جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان کا یہ مشورہ ماضی کی طرح آج بھی کارآمد ہے اگر ہم اہل کراچی اس پر واقعی عمل کریں تو کراچی کے موجودہ تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔

کراچی کے ایک انگریزی اخبار ’’ڈیلی گزٹ‘‘ کے انگریز مدیر اورکراچی میونسپلٹی کے کونسلر سر مائنٹنگ ویب “Sir Miniting Web” نے 1933 میں کراچی کے تھیوسوفیکل ہال میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس وقت کے کراچی کی خوبیاں ان الفاظ میں بیان کی تھیں۔ ’’کراچی کی آب و ہوا ہندوستان کی دوسری تمام بندرگاہوں سے اچھی اور معتدل ہے۔ یہاں اچھی اور سستی خوراک میسر آسکتی ہے اور صاف و شفاف پانی بہ افراط دستیاب ہے۔ تفریح کے لیے وسیع و عریض میدان، پارک ، کشادہ سڑکیں اور دوسرے نظارے بھی موجود ہیں۔ کراچی کی معروف بندرگاہ اپنوں اور پرایوں کی روزی کا بڑا وسیلہ ہے۔ شہر روز بہ روز وسیع ہو رہا ہے کیونکہ تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ کراچی ہندوستان کی یورپ سے نزدیک ترین بندرگاہ ہے۔ کراچی ہندوستان کا لیور پول اور مشرق کا پیرس ہے۔ اس حسین شہر کی صفائی ستھرائی اور امن لاجواب ہیں۔ اس شہر میں ترقی کے ایسے آثار موجود ہیں کہ مستقبل میں اس کا غیر معمولی ترقی کرنا امر یقینی ہے۔‘‘

جنرل چارلس نیپیئر جب یکم اکتوبر 1847 کو سندھ کی گورنری سے مستعفی ہو کر بمبئی جا رہا تھا اس نے بڑی حسرت سے کراچی کے لیے یہ الفاظ کہتے ہوئے الوداع کہا تھا ’’اے کراچی تو عنقریب مشرق کی ملکہ ہو گی، جب تو اس بلند مرتبے پر پہنچے تو میری تمنا ہے کہ میں تجھے ایک بار دیکھ سکوں۔‘‘ قیام پاکستان کے بعد 25 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ان کے اعزاز میں منعقدہ استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کراچی کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا تھا ’’ میں کراچی میں پیدا ہوا۔ اس سرزمین پر اپنا بچپن گزارا۔ بے شک میرے دل میں اس خوبصورت شہر کی بے حد قدر و منزلت ہے مگر یہ اس لیے نہیں کہ اس شہر سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں یا چونکہ میں یہاں پیدا ہوا۔ میں اس شہر کا اس لیے احترام کرتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی شہر نہیں ہے۔ اسے قدرت نے بے شمار نعمتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔

یہ اپنی گوناگوں خوبیوں کی بدولت ایک معمولی قصبے سے ایک عظیم شہر بن کر ابھرا ہے۔ یہ آج موجودہ دور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں یہ بات آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر کا مستقبل تابناک ہے۔ اس کی بندرگاہ یا ہوائی اڈہ ہی نہیں، مستقبل میں پورا شہر لاثانی ہو گا۔ کراچی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس وقت جب کہ دنیا کے تمام بڑے شہر اونچی اونچی عمارتوں سے گھر گئے ہیں، کراچی میں کھلی فضا اور وافر تازہ ہوا موجود ہے۔ یہاں کی کھلی فضا، معتدل موسم اور سمندر کی جانب سے چلنے والی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوائیں نہ صرف یہاں کے شہریوں کو بلکہ سیاحوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ انھیں حقیقی سکون چین اور فرحت بخشتی ہیں، کراچی کو برطانوی دور میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ وائسرائے ہند اکثر کراچی کے دورے پر آتا رہتا تھا۔ جب وائسرائے ہند پہلی مرتبہ کراچی کے دورے پر آیا تو اہل کراچی نے اپنے شہر کو ہندوستان کا دارالخلافہ بنانے کا پرزور مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت تک دراصل دہلی کو ہندوستان کا دارالحکومت قرار نہیں دیا گیا تھا۔

اس وقت انگریز سرکار ہندوستان کے پانچ شہروں میں سے کسی ایک کو ہندوستان کا مستقل دارالحکومت قرار دینے پر غور کر رہی تھی۔ ان شہروں میں شملہ، کلکتہ، دہلی، ساگر (سی پی) اور کراچی شامل تھے۔ افسوس کہ آج وہی ماضی کا سنہرا کراچی اپنی گندگی، چوریوں، ڈکیتیوں اور آلودہ فضا کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہو چکا ہے۔ پانی، بجلی، گیس کی قلت، سڑکوں کی بری حالت، ٹرانسپورٹ کے مسائل کے علاوہ فراہمی و نکاسی آب کے مسائل نے اس شہر کے باسیوں کا جینا اجیرن کر دیا ہے، گٹروں کے ابلنے اور برسات میں شہر کے ڈوبنے کی روایات اب بھی جاری ہیں۔ کورنگی اور لانڈھی کو ڈیفنس کی طرف سے جانے والی سڑکیں ملیر ندی سے گزرتی ہے جو برسات میں اس پر پانی بہنے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے جو کئی کئی دن بند رہتی ہے۔ برسوں سے لانڈھی اور کورنگی کے لاکھوں عوام کو یہ مشکل درپیش ہے مگر سندھ حکومت نے خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔ کاش کہ اس ندی پر ایک پل تعمیر ہو جائے تو ان علاقوں کے عوام کی مشکل دور ہو جائے۔ حال ہی میں عمران خان نے کراچی میں سرکولر ریلوے کو دوبارہ بحال کرنے کے کام کا افتتاح کیا ہے اور پانی کے K-4 منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا ہے۔

عثمان دموہی 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments