Karachi

6/recent/ticker-posts

گرین ٹرانسپورٹ کا آغاز

ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کے حامل ملک کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر کراچی میں 80 ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں پر مشتمل گرین لائن بس سروس کا آغاز ہو گیا۔ وفاق کے تحت 2016ء میں ن لیگ کے دور میں شروع ہونے والا سرد خانے میں پڑا یہ منصوبہ اسی سال پی ٹی آئی حکومت کے جاری کردہ فنڈز کی فراہمی کے بعد ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 10 دسمبر کو اس کا افتتاح کیا تھا اور پندرہ روز آزمائش کے بعد چار چار گھنٹے کی دو شفٹوں پر مشتمل یہ سروس 14 جنوری تک اسی طرح جاری رہے گی جبکہ 15 جنوری سے بسیں پورا دن چلیں گی۔ ایک بس میں بیک وقت 180 افراد سفر کر سکتے ہیں۔ اس میں خواتین، معذور افراد اور مرد مسافروں کیلئے الگ الگ تین سیکشن بنائے گئے ہیں۔ کم از کم کرایہ پندرہ اور زیادہ سے زیادہ 55 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ 

منصوبے کے آغاز میں کل مسافت 21 کلو میٹر رکھی گئی تھی تاہم مسلسل تاخیر کو دیکھتے ہوئے فی الحال سرجانی ٹائون سے نمائش تک کے مسافروں کو یہ سروس میسر آ سکے گی۔ ویسے تو اگر دیکھا جائے پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر معیاری فراہمی مجموعی طور پرپورے ملک کا مسئلہ ہے جہاں شہر شہر بیشتر رکشے، موٹر سائیکل، چنگچی ، ویگنیں غیر محفوظ طریقے سے نیم پختہ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گنجائش سے زیادہ مسافروں کو لیکر چلتی ہیں لیکن شہر قائد میں یہ معاملہ گذشتہ تین چار دہائیوں سے بتدریج گمبھیر صورت اختیار کر تا چلا آیا ہے۔ اگر اس ضمن میں یہ کہا جائے کہ یہاں ٹرانسپورٹ کے ایک مسئلے نے دوسرے بیسیوں مسائل پیدا کر رکھے ہیں تو بے جا نہ ہو گا گذشتہ برس کی طوفانی بارشوں کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورے کے موقع پر اعلیٰ سطحی اجلاس بلا کر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ، پینے کے پانی کی قلت پر قابو پانے ، سیوریج ، ٹرانسپورٹ اور تجاوزات سے نمٹنے کیلئے 100 منصوبوں پر کام شروع کرنے کے پروگرام پر جو اتفاق کیا تھا، بالآخر ٹرانسپورٹ، ٹریفک اور سڑکوں کے مسائل پر آکر یکجا ہو جاتے ہیں جن میں سرکلر ریلوے بھی شامل ہے۔ 

بیس پچیس سال قبل اس بین الاقوامی شہر میں 25 ہزار چھوٹی بڑی بسیں چلتی تھیں جن کی تعداد اس وقت کم ہو کر پانچ ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔ ان کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملےمیں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں اور سارا کاروبار پرائیویٹ سیکٹر خود چلا رہا ہے جبکہ عدم توجہی کے باعث کوئی بھی شخص یا ٹرانسپورٹ کمپنی سرمایہ کاری کا رسک اٹھانے کو تیار نہیں۔ ادھر صوبائی حکومت کے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبوں میں گرین لائن کے علاوہ ریڈ ، بلیو، اورنج اور یلو لائن بھی شامل ہیں۔ ان میں 78 ارب روپے کی لاگت سے ریڈ لائن منصوبہ 29 کلو میٹر پر مشتمل ہے جس پر 24 اسٹیشن قائم ہونگے اور 213 بسیں چلیں گی، بلیو لائن روٹ 10 کلو میٹر کا ہے ان میں سے اورنج لائن منصوبے کا افتتاح سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کیا تھا تاہم یہ ابھی تک غیر فعال ہے۔ کراچی کا شمار چند ایک بین الاقوامی شہروں میں ہوتا ہے جو اپنے رقبے، جغرافیہ ، صنعت و تجارت، شہری خدوخال میں بڑی مماثلت رکھتے چلے آتے ہیں تاہم گذشتہ کم و بیش چار پانچ دہائیوں سے ان میں فاصلے بدستور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور منی پاکستان کہلایا جانے والا یہ شہر جس حال سے دوچار ہے آئے دن اس کا کوئی نہ کوئی پہلو ہمارے سامنے اپنی بے بسی کی تصویر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

اگر کچھ اور نہیں تو پاکستان کو 75 اور سندھ کو 85 فیصد سے زیادہ آمدنی دینے والے اس شہر کو کم از کم اچھی سڑکیں، ایک سے زیادہ ٹرانسپورٹ کے ذرائع، فراہمی و نکاسی آب کے منصوبے دئیے جانے چاہئیں اور گرین لائن جیسے منصوبوں کی قدر کی جانی چاہئے تاکہ یہ دیر پا ثابت ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments